Saturday, August 31, 2019

لوگ مقدر سے مار کھا گئے

میں نے اس سے عرض کیا ”میں تمہیں دنیا کے چند لوگوں کی کہانیاں سناتا ہوں‘ ان لوگوں کے پاس عقل بھی تھی‘ محنت بھی اور علم بھی لیکن یہ لوگ مقدر سے مار کھا گئے چنانچہ آج دنیا میں کوئی شخص ان کے نام سے واقف نہیں جبکہ ان کی محنت‘ ان کے علم اور ان کی عقل سے فائدہ اٹھانے والوں نے دنیا میں دولت بھی کمائی‘ نام بھی اور شہرت بھی“۔ میں نے نوجوان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ نوجوان نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور دکھی آواز میں بولا ”مثلا“ میں نے عرض کیا ”مثلاً تم بجارنی ہرجلف سن کو لے لو‘ اس شخص نے کرسٹوفر کولمبس سے 506 سال پہلے امریکا دریافت کر لیا تھا‘ یہ 986ء میں گرین لینڈ کیلئے روانہ ہوا‘ راستے میں اس کا جہاز سمندری طوفان میں پھنس گیا‘ یہ روٹ سے ہٹا اور یہ امریکا کے ساحل پر پہنچ گیا‘ طوفان ختم ہوا تو اس نے خود کو عجیب دنیا میں پایا‘ اس کے سامنے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور گھنے جنگل تھے‘ یہ نئی دنیا دیکھ کرڈر گیا‘ اس کے ساتھیوں نے اس سے زمین پر اترنے کی درخواست کی لیکن بجارنی نہ مانا۔
اس نے جہاز موڑا اور واپس گرین لینڈ چلا گیا‘ اس نے واپسی پر اپنے دوست لیف ایریکسن کو اس عجیب وغریب زمین کے بارے میں بتایا‘ لیف ایریکسن کو تجسس ہوا‘ اس نے بجارنی کا بحری جہاز لیا‘ اس سے نقشے حاصل کیے اور یہ بھی امریکا پہنچ گیا لیکن تم قسمت کا ہیر پھیر دیکھو دنیا آج ان دونوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور وہ کرسٹوفر کولمبس جو 1492ء میں انڈیا کا نیا راستہ تلاش کرتا ہوا امریکا پہنچااور یہ مرنے تک نئی دنیا کوانڈیا سمجھتا رہا دنیا آج اسے امریکا کا ”فاتح“ قرار دے رہی ہے۔
یہ کیا ہے؟ کیایہ مقدر کا کھیل نہیں؟“ نوجوان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ میں نے عرض کیا ”تم اب والٹر ہنٹ کو دیکھو‘ اس نے دنیا کو 25چیزیں دیں‘ اس نے سلائی مشین بنائی‘ اس نے ری پیٹنگ رائفل بنائی‘ اس نے فونٹین پین ایجاد کیا تھا اور اس نے سیفٹی پن بنائی لیکن یہ ایجادات پوری زندگی اس کیلئے مذاق بنی رہیں‘ وہ ان سے ایک وقت کا کھانا نہیں کھا سکا‘ اس نے 1834ء میں سلائی مشین بنائی تو لوگوں نے یہ کہہ کر اس کی مشین مسترد کر دی ”اس سے درزی بے روزگار ہو جائیں گے“۔
وہ اس رائے سے دل برداشتہ ہوگیا اور اس نے سلائی مشین رجسٹر نہیں کرائی‘ اس نے فونٹین پین بنایا لوگوں نے اسے کھلونا قرار دے دیا‘ اس نے ری پیٹنگ رائفل بنائی‘ لوگوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا اور آخر میں اس نے سیفٹی پن ایجاد کر لی‘ ہم سب والٹرہنٹ کی بنائی سیفٹی پن استعمال کرتے ہیں لیکن والٹرہنٹ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا‘ اس نے سیفٹی پن کی رجسٹریشن سو ڈالر میں بیچ دی تھی‘ خریدنے والوں نے اس سے اربوں روپے کمائے لیکن والٹرہنٹ 63سال کی عمر میں اپنی ورکشاپ کی میز پر خون تھوک کر مر گیا تھا۔ یہ کیا ہے؟ کیا یہ بدقسمتی نہیں“۔
نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ میں نے اس سے عرض کیا ”اور تم ٹیلی فون کی کہانی بھی سنو‘ یہ ٹیلی فون جرمنی کے ایک سکول ٹیچر فلپ رئیس نے 1860 میں ایجاد کیا تھا‘ وہ اس کے ذریعے گھر بیٹھ کر اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتا تھا‘ اس آلے کو ٹیلی فون کا نام بھی فلپ رئیس ہی نے دیا تھا‘ وہ اس پر برسوں کام کرتا رہا جب ٹیلی فون خوبصورت شکل میں آ گیا تو اس نے جرمنی کے چوٹی کے سائنس دانوں کے پاس بھجوایا لیکن سب نے اسے کھلونا کہہ کر گودام میں پھینک دیا۔ اس وقت ایلیشا گرے نام کا ایک دوسرا سائنس دان بھی ٹیلی فون پر کام کر رہا تھا۔
وہ بھی کامیاب ہو گیا لیکن اسے یہ آلہ سائنسی لحاظ سے شاندار مگر بزنس کے پوائنٹ سے فضول دکھائی دیتا تھا چنانچہ اس نے ٹیلی فون بنا کر دوستوں میں تقسیم کرنا شروع کر دئیے‘ ٹیلی فون کے پہلا موجد فلپ رئیس کو ٹی بی ہوئی اور وہ 1874ء میں انتقال کر گیا۔ گراہم بیل ان دنوں ٹیلی گراف کو بہتر بنانے پر کام کر رہا تھا لیکن اس نے بھی اتفاقاً ٹیلی فون ایجاد کر لیا‘ وہ 1876ء میں اپنی یہ ایجاد لے کر رجسٹریشن آفس پہنچ گیا اور اسے ”پیٹنٹ“ کرا لیا۔ ٹیلی فون کا دوسرا موجد ایلیشا گرے بھی اسی دن رجسٹریشن آفس گیا لیکن یہ گراہم بیل سے دو گھنٹے لیٹ ہو گیا چنانچہ ٹیلی فون کی عزت اور دولت دونوں گراہم بیل کے حصے میں آ گئی‘ کیا یہ فلپ رئیس اور ایلیشا گرے کی بدقسمتی نہیں تھی؟“ نوجوان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
میں نے عرض کیا ”تاریخ ایسی بے شمار داستانوں‘ایسی ہزاروں لاکھوں کہانیوں سے بھری پڑی ہے‘ یہ لوگ عالم بھی تھے‘ عامل بھی‘محنتی بھی‘ مخلص بھی‘ جرات مند اور بہادر بھی اور ان لوگوں نے اپنے مقصد کیلئے جانیں بھی دیں لیکن ان کے پاس مقدر نہیں تھا‘ یہ خوش قسمت نہیں تھے چناں چہ ان کی تیار فصلیں کھیتوں میں کھڑی رہ گئیں اورخوش قسمت لوگ راہ چلتے خوشی‘ کامیابی‘ شہرت اورنصیب سمیٹ کر گھر چلے گئے اور ان کی نسلوں تک کا مقدر بدل گیا۔ میں علم کا حامی ہوں۔
یں محنت کی عظمت کا بھی داعی ہوں اور میں عقل کو قدرت کا بہت بڑا معجزہ بھی سمجھتا ہوں‘ یہ عقل ہے جو انسان کو جانوروں کی سطح سے بلند کرتی ہے‘ یہ محنت ہے جو لوہے کو سونے کی شکل دیتی ہے اور یہ علم ہے جو انسان کو خدا تک لے جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم مقدر کے عنصر کو زندگی سے نہیں نکال سکتے‘ یہ مقدر ہے جو ایک ہی کان میں پڑے پتھروں میں سے کسی کو کوئلہ بنا دیتا ہے اور کسی کو ہیرا۔ جو ایک ہی غار کی دھات کو لوہے کی شکل دے دیتا ہے اور اسی غار میں پڑی دھات کو سونا بنا دیتاہے۔
لوہے اور سونے کے فرق اور کوئلے اور ہیرے کے ”ڈفرنس“ کو مقدر کہا جاتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سے جب بھی مانگو مقدر مانگو کیونکہ لوہا چاہے جتنا بھی مضبوط‘ چمک دار اور شان دار ہو جائے وہ لوہا ہی رہتا ہے اور سونا خواہ کتنا ہی میلا‘ پرانا اور گندا کیوں نہ ہو جائے یایہ نالی ہی میں کیوں نہ گر جائے یہ سونا ہی رہتا ہے‘ دنیا کا کوئی علم‘ دنیا بھر کی مشترکہ محنت اور ساری خلق خدا مل کر بھی لوہے کو سونا نہیں بنا سکتی اوردنیا بھر کے حاسدین مل کر بھی سونے کو لوہے کے لیول تک نہیں گرا سکتے“۔

یہ جنت وہ جنت

وہ بولے ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے کہتا ہے تم سچ بولو‘ انصاف کرو‘ انسانی حقوق کا خیال رکھو‘ جانوروں کو بھی خوراک‘ پانی اور علاج دو‘ غیبت نہ کرو‘ چغل خوری سے بچو‘ کسی کا مذاق نہ اڑاؤ‘ گورے کو کالے اور کالے کو گورے کے برابر سمجھو۔
وعدہ پورا کرو‘ وقت کی پابندی کرو‘ چیز کا نقص پہلے بتاؤ اور فروخت بعد میں کرو‘ بچوں کے ساتھ پیار کرو‘ غریبوں کا آسرا بنو‘ بوڑھوں اور معذوروں کا خیال رکھو‘ تمہارے دائیں بائیں کوئی شخص بھوکا نہیں سونا چاہیے‘ لوگوں کو گھروں میں آباد کرو‘ پانی گندا نہ کرو‘ درخت نہ کاٹو‘ خوراک ضائع نہ کرو‘ اپنے فالتو کپڑے‘ جوتے اور فرنیچر ضرورت مندوں کو دے دو‘ بیماروں کا علاج بھی کرو اور تیمار داری بھی‘ ہمسائے کو پریشان نہ کرو‘ سواری راستے میں نہ باندھو (رانگ پارکنگ)‘ لوگوں کو ٹھیک مشورہ دو‘ انصاف کرو۔

اپنے بھائی کے لیے بھی وہ پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘ لوگوں کے آباد گھر خراب نہ کرو‘ کسی کی پرائیویٹ لائف کی ٹوہ نہ لگاؤ‘ جاسوسی نہ کرو‘ لوگوں کے راز نہ کھوجو‘ چادر اور چاردیواری کا احترام کرو‘ دوسروں کے گناہوں پر پردہ ڈالو‘ کھانا کم کھاؤ‘آہستہ کھانا کھاؤ‘ صحت کا خیال رکھو‘ ورزش کرو‘ ماحول کو صاف ستھرا رکھو‘ چوری نہ کرو‘ زنا سے بچو‘ قتل نہ کرو‘ گواہی نہ چھپاؤ‘ دوسروں کے مال پر نظر نہ رکھو‘ ملاوٹ نہ کرو‘ صبح جلدی اٹھو‘ بازاروں میں دیر تک نہ پھرو۔
شوروغوغا نہ کرو اور لوگوں کے ساتھ عزت اور تمیز کے ساتھ بات کرو‘ اونچا نہ بولو‘ کسی کے کان میں نہ جھکو‘ کسی کے قد‘ کاٹھ‘ جسمانی نقص اور حلیے کا مذاق نہ اڑاؤ‘ دولت‘ حسن اور مرتبے کا غرور نہ کرو‘ تکبر سے بچو اور ظلم نہ کرو‘ اللہ کے تمام احکامات ان کے درمیان ہیں‘ آپ مذہب کی کوئی کتاب کھول لیں‘ آپ کو اللہ تعالیٰ جرم‘ گناہ اور غلطی سے بچنے کا حکم دیتا ملے گا‘ یہ اخلاقیات کو عبادت سے زیادہ اہمیت دیتا نظر آئے گا“۔
”اللہ تعالیٰ ہم سے بار بار ان احکامات کے بدلے جنت کا وعدہ کرتا ہے‘ یہ کہتا ہے تم اگر خود کو جنت کاحق دار بنانا چاہتے ہو تو پھر تمہیں یہ کرنا ہوگا‘ وہ یہ بھی بتاتا ہے تمہاری کون سی غلطی‘ کوتاہی‘ گناہ اور جرم تمہاری کتنی نیکیاں برباد کر دیتا ہے لہٰذا تم ان سے بچتے رہو“ ۔
”ہم اللہ تعالیٰ سے جنت کے بارے میں پوچھتے ہیں تو یہ ہمیں بتاتا ہے جنت میں کیا کیا ہو گا‘ جنت میں خوراک کی فراوانی ہو گی‘ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی‘ پھل دار درخت ہوں گے‘ میوے ہوں گے‘ دور دور تک سایہ دار درخت ہوں گے‘ ٹھنڈے چشمے اور گرم ندیاں ہوں گی‘ چہچہاتے پرندے ہوں گے‘ بادلوں کے سائے ہوں گے‘ خوشبوئیں ہوں گی‘ لمبی زندگی اور خوشیاں ہوں گی‘ حوریں ہوں گی اور شراب طہور ہو گی‘ مذہبی کتابیں بتاتی ہیں جنت ایک ایسی جگہ ہو گی جہاں غربت‘ بیماری‘ طبقاتی تقسیم‘ بڑھاپا‘ پریشانی‘ مسائل اور مصائب نہیں ہوں گے‘ وہاں کوئی کسی کے ساتھ نہیں الجھے گا۔
گھروں کے درمیان فاصلہ ہو گا تاکہ کسی جنتی کی پرائیویٹ لائف ڈسٹرب نہ ہو‘ اللہ تعالیٰ کے انعامات ہر وقت برستے رہیں گے‘ قدرت روز اپنے جلوے دکھائے گی‘ آمد ورفت اور نشست و برخاست کا بھی کوئی ایشو نہیں ہو گا اور جنت میں گورے اور کالے اور اونچے اور نیچے کا فرق بھی مٹ جائے گا“۔ وہ رکے اور آہستہ آواز میں بولے ”میں اگر غلط ہوں تو اللہ مجھے معاف کر دے لیکن مجھے مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھے بیٹھے احساس ہوا اللہ تعالیٰ نے جو احکامات انسان کے لیے اتارے تھے وہ تمام یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں میں موجود ہیں۔
آپ پہلی صف کے ملکوں کی فہرست بنائیں اور دیکھیں آپ کو وہاں اللہ کا ہر وہ حکم عملی شکل میں ملے گا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے اتارا‘ آپ کو یہ لوگ جھوٹ‘ ملاوٹ‘ غیبت‘ وعدہ خلافی‘ شور شرابے‘ جرم اور دوسروں کی پرائیویٹ زندگی سے پرہیز کرتے ملیں گے‘ آپ کو وہاں ڈسپلن بھی ملے گا‘ امن بھی‘ آشتی بھی‘ انصاف بھی‘ رواداری بھی‘ برابری بھی‘ سچائی بھی‘ ماحول دوستی بھی اور ترتیب بھی‘ آپ یورپ میں اپنی مرضی سے درخت لگا تو سکتے ہیں لیکن کاٹ نہیں سکتے۔
دریا ڈینوب یورپ کا دوسرابڑا دریا ہے‘ یہ 10ملکوں سے گزرتا ہے‘ یورپ کا کوئی ملک اس میں سیوریج کا پانی نہیں گراتا‘ آسٹریا اپنے ملک کا پانی صاف کرتا ہے اور پھر یہ صاف پانی دریا ڈینوب میں ڈالتا ہے‘ یہ ہر سال اس عمل پر دو بلین ڈالر خرچ کرتا ہے‘ آپ کو جتنے جنگل یورپ میں ملتے ہیں‘ آپ کو اتنے اسلامی دنیا میں مجموعی طور پر نہیں ملیں گے‘ اللہ تعالیٰ نے علم‘ تحقیق اور عقل کا حکم دیا تھا‘ آپ کو مغرب میں عقل بھی ملے گی‘ تحقیق بھی اور علم بھی۔
امریکا کے ایک شہر بوسٹن میں سال میں جتنے مقالے لکھے جاتے ہیں اسلامی دنیا میں اتنے مجموعی طور پر تحریر نہیں ہوتے‘ یہ لوگ چاند اور مریخ سے توانائی زمین پر لانا چاہتے ہیں‘ یہ خون کے ایک قطرے سے آپ کو بتا دیتے ہیں آپ کو کس عمر میں کون سی بیماری ہو گی اور آپ اور آپ کے بچوں کی عمریں کیا ہوں گی‘ آپ اگر عملی طور پر دیکھیں تو آپ کو یورپ میں شہد اور دودھ کی نہریں بھی ملتی ہیں‘ آپ کو وہاں ہر شخص روز شہد اور دودھ استعمال کرتا ملے گا۔
آپ دیہات میں بھی چلے جائیں آپ کو وہاں بھی وافر مقدار میں دودھ‘ شہد‘ پھل‘ گوشت اور خوراک ملے گی اور آپ اگر برا نہ منائیں تو آپ کو یورپ کی عورتوں میں حوروں کاحسن اور فراخ دلی بھی ملتی ہے۔یہ لوگ غربت اور بیماری پر بھی قابو پا رہے ہیں اور ان کی اوسط عمر بھی ہم سے زیادہ ہے چناں چہ آپ اگر جنت کو زمین پر تلاش کریں تو یہ آپ کو یورپ میں ملے گی“۔ہم دوبارہ گھاس پر آ گئے‘ گھاس کا یہ ٹکڑا صاف تھا‘ ہم اس پر چلتے گئے۔
وہ رک کر بولے ”میں اگر غلط ہوں تو اللہ معاف کرے‘ مجھے مسجد میں بیٹھے بیٹھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ نے شاید ہمیں دو جنتوں کا راستہ دکھایا ہو‘ زمین کی جنت اور آسمانوں کی جنت‘ زمین کی جنت آسمانوں کی جنت کا پرومو‘ اس کا پری فیس ہو سکتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے شاید یہ فرمایا ہو تم یہ کر لو زمینی جنت بھی تمہاری ہو جائے گی اور آسمانی بھی‘ گوروں نے اللہ تعالیٰ کی بات مان لی چناں چہ ان کی زندگی جنت ہو گئی‘ یہ دنیا ہی میں وہ تمام سہولتیں انجواء کرنے لگے جن کا وعدہ اللہ نے ہم سے آسمانوں پر کیا تھا جب کہ ہم اللہ کی حکم عدولی کر کے دنیا اور آخرت دونوں جنتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
ہم دنیا اور آخرت دونوں سے راندہ درگاہ ہو رہے ہیں“ وہ رکے اور آہستہ سے بولے ”میں عالم نہیں ہوں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے انسان اگر اللہ کے احکامات پر عمل کر لے تو اس کے پاؤں کے نیچے موجود زمین کا ٹکڑا جنت بن جاتا ہے‘ یہ دنیا میں شہد‘ دودھ‘ پھل‘ سائے اور حوروں کا حق دارہو جاتا ہے اور یہ اگر اللہ کا حکم نہ مانے تو یہ یہاں اور وہاں دونوں جنتوں سے محروم ہو جاتا ہے“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے کھانس کر گلا صاف کیا اور آہستہ سے کہا ”یہ بات صرف ملکوں اور معاشروں تک محدود نہیں‘ ہم لوگ اگر انفرادی سطح پر بھی اللہ کے احکامات مان لیں تو ہماری زندگی جنت بن جاتی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں آج تک کسی ایسے شخص کو مفلوک الحال‘ خوراک کی کمی‘ بے سکونی‘ بیماری اور بے عزتی کا شکار نہیں دیکھا جو سچ بولتاہو‘ وقت اور وعدے کی پابندی کرتاہو اور انصاف اور صلہ رحمی کرتا ہو‘ جو عاجز ہو‘ شائستہ ہو‘ مہذب ہو‘ علم کا متلاشی ہو اور انسانوں کا ہمدرد ہو‘ ہم میں سے جو شخص اللہ کے احکامات کی پابندی کر لیتا ہے وہ دنیا اور آخرت دونوں کا جنتی ہو جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی زمینی بیوی کو حور اور پانچ مرلے کے گھر کو محل بنا دیتا ہے لیکن ہم یہ حقیقت فراموش کر کے پوری زندگی بادلوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں‘ ہم سامنے موجود جنت کو چھوڑ کر خوابوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں“۔


بھارت نے صدارتی فرمان کے ذریعے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا

”ثالثی کا گراﺅنڈ تیار کیا جا رہا ہے“ صاحب کے الفاظ میرے کانوں میں بم کی طرح پھٹے اور میں ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا‘ وہ ریشمی گاﺅن کی ڈوری کے ساتھ کھیل رہے تھے‘ وہ بار بار ڈوری کستے تھے اور پھر ڈھیلی کر دیتے تھے‘ صاحب فارغ البال ہیں‘ زندگی میں بے تحاشا پیسا کمایا‘ شاندار گھر بنایا‘ قیمتی گاڑیاں خریدیں‘ بچے ملک سے باہر سیٹل کرا دیے‘ یہ گرمیوں میں سوئٹزر لینڈ چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں پاکستان آ جاتے ہیں ۔
رات دیر تک جاگتے ہیں اور صبح لیٹ اٹھتے ہیں‘ ناشتے کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ سگار پیتے ہیں‘ اخبار پڑھتے ہیں‘ کافی سونگھتے ہیں اور انکشافات کرتے ہیں‘ ملک اور بیرون ملک اشرافیہ ان کی دوست ہے‘ سفارت کار‘

وزراءاور پالیسی ساز ملتے رہتے ہیں اور یہ ان سے انفارمیشن کشید کرتے رہتے ہیں‘ یہ مجھے اپنا برخوردار سمجھتے ہیں‘ میں جب بھی الجھ یا پھنس جاتا ہوں تو صاحب میری فکری تنابیں تھام لیتے ہیں‘ یہ مجھے اندر کی بات بتا دیتے ہیں‘ کل بھارت نے صدارتی فرمان کے ذریعے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا‘ وزیر داخلہ امیت شاہ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے راجیہ سبھا میں بل بھی پیش کر دیا‘ یہ ایک خوف ناک خبر تھی‘ بل پاس ہونے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت میں ضم ہو جائے گا‘ اس کی متنازع حیثیت ختم ہو جائے گی اور یہ انڈیا کا حصہ بن جائے گا‘ یہ خوف ناک ”موو“ تھی اورمیں یہ موو سمجھنے کے لیے صاحب کے پاس آ گیا‘ صاحب اے سی لگا کر کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے‘ کمرے کا درجہ حرارت 16 ڈگری پر تھا جب کہ باہر 38 درجے کی گرمی پڑ رہی تھی‘ فضا میں خوف ناک حبس بھی تھا‘ چہرے پر تیل سا جم رہا تھا۔میں نے صاحب سے عرض کیا ”جناب یہ کیا ہو رہا ہے“ صاحب نے فوراً جواب دیا ”یہ ثالثی کے لیے میدان سجایا جا رہا ہے“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ”آپ کو یاد ہوگا 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات میں کھلم کھلا کہا تھا ‘میں کشمیر کے ایشو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہوں‘ مجھے نریندر مودی نے بھی اس کا عندیہ دیا تھا“۔
وہ رکے اور بولے ” نریندر مودی اور اس کی حکومت نے امریکی صدر کے بیانیہ کی فوراً تردید کر دی تھی لیکن تردید کے دس دن بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 38 ہزار فوجی بھی بڑھا دیے‘ ایل او سی پر چھوٹی بڑی توپیں بھی لگا دیں‘ فائرنگ بھی شروع کر دی‘ ہوائی اڈوں پر طیارے بھی کھڑے کر دیے‘ وادی میں موجود تمام سیاح بھی نکال لیے‘ کشمیری لیڈروں کی گرفتاری اور نوجوانوں کو گولیاں مارنا بھی شروع کر دیا اور پھر ساتھ ہی آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا‘ اچانک ایسا کیوں ہوا؟“ ۔
وہ خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگے‘ باہر بارش شروع ہو گئی‘ صاحب نے پردے کھینچ کر کھڑکی مزید ننگی کر دی‘ بارش پودوں اور درختوں کو غسل دے رہی تھی‘ صاحب چند لمحے باہر دیکھتے رہے اور پھر بولے ”یہ اچانک اتنا اچانک نہیں ‘ پاکستان اور پاکستان کے اتحادی پہلی مرتبہ ایک صفحے پر آئے ہیں‘ یہ سمجھ گئے ہیں کشمیر کے مسئلے کے حل تک پاکستان معاشی طور پر ٹیک آف نہیں کر سکتا‘ یہ انڈرسٹینڈنگ اب بھارت میں بھی آ چکی ہے‘ نریندر مودی نے بھی سوچ لیا ہے بھارت کو کشمیر پر فل کریک ڈاﺅن کرنا چاہیے۔
سارے ریاستی وسائل ایک ہی بار اس میں جھونک دینے چاہییں اور سال ڈیڑھ سال میں اس ایشو کو اُدھر تم اور اِدھر ہم فارمولے کے تحت حل کر لینا چاہیے‘ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اور آزاد کشمیر پاکستان کا‘ لائین آف کنٹرول کو تھوڑا بہت ایڈجسٹ کر کے انٹرنیشنل بارڈر بنا دیا جائے‘ کشمیر کے جس پوائنٹ پر بھارت آسانی محسوس کرے وہ اسے سرحد مان لے اور جہاں پاکستان کے لیے آنا اور جانا ممکن ہو وہ اسے بارڈر بنا لے اور بس مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم“ وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے سراسیمگی کے عالم میں عرض کیا ”لیکن پھر ثالثی کہاں سے آ گئی“ وہ مسکرائے اور آہستہ سے بولے ”لائین آف کنٹرول ایکٹو ہو رہی ہے‘ بھارت گولہ باری کر رہا ہے‘ گولہ باری میں مزید اضافہ ہوگا‘ پاکستان بھی بھرپور جواب دے گایوں یہ پورا خطہ حالت جنگ میں چلا جائے گا اور پھر امریکا‘ اقوام متحدہ اور فرینڈز آف پاکستان آگے آئیں گے‘ چین ہماری طرف سے ثالث ہو گا اور امریکا بھارت کی جانب سے‘ انڈیا چین کو مان لے گا اور ہم امریکا کے کردار کو تسلیم کر لیں گے اور یہ دونوں ملک کشمیر کا فیصلہ کر دیں گے۔
یہ ایل او سی کو عالمی سرحد قرار دے دیں گے تاہم اس فیصلے کے ساتھ پاکستان اور بھارت سے چند وعدے لیے جائیں گے‘ بھارت کشمیر (مقبوضہ) سے ایمرجنسی ختم کرے گا‘ پیلٹ گن استعمال نہیں کرے گا‘ کشمیر کے کسی شہری کو قتل نہیں کرے گا‘ علاقے سے تمام پابندیاں اٹھا دے گا اور یہ کشمیریوں کو سرحد پار جانے اور آنے کی اجازت دے گا اور پاکستان سے بھی گارنٹی لی جائے گی‘ یہ مجاہدین پر پابندی لگائے گا‘ سرحد پاراسلحہ نہیں جانے دے گا اور کشمیر کے اندر کسی قسم کی تحریک کو سپورٹ نہیں کرے گا۔
چین اور امریکا دونوں اس معاہدے کے گارنٹر ہوں گے‘ بھارت یا پاکستان میں سے جو بھی خلاف ورزی کرے گا‘ یہ دونوں ملک سفارتی‘ سیاسی اور عسکری طریقے سے اس سے نبٹیں گے“ صاحب خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”لیکن جناب یہ ہمارے موقف کی سیدھی سادی توہین ہے‘ ہم کشمیر کے لیے 71 سال سے لڑ رہے ہیں‘ ہم نے اگر یہ ہی کرنا تھا تو پھر ہمیں 71 سال تک لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم 1948ءمیں ایل او سی کو بارڈر تسلیم کر لیتے اور اب تک سنگا پور یا ملائیشیا بن چکے ہوتے“ ۔
صاحب نے گردن ہلائی اور وہ دیر تک بارش کو دیکھتے رہے پھر آہستہ آہستہ بولے ”ہمیں بہرحال یہ ماننا ہوگا ہم مسئلہ کشمیر کو سیٹل کیے بغیر ترقی نہیں کر سکیں گے‘ ہم ہر آنے والے دن مزید غربت‘ مزید بیماری اور مزید بد امنی کا شکار ہوں گے‘ ہم اگر ان سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بنگلہ دیش کی طرح اس حقیقت کو بھی حقیقت ماننا ہوگا‘ بھارت اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسی قیادت آئی جو یہ مسئلہ حل کر سکتی ہے‘ دنیا اس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہتی“ وہ رک گئے‘ میں انہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔
وہ بولے ” یہ کام صرف وہ لوگ ہی کر سکتے تھے جن کا کوئی سٹیک نہ ہو اور عمران خان اور نریندر مودی دونوں کا کوئی سٹیک نہیں‘ مودی غیر شادی شدہ اور بے اولاد ہیں‘ یہ دوسری اور آخری بار وزیراعظم بنے ہیں‘ یہ پانچ سال گزار کر ریٹائر ہو جائیں گے‘ عمران خان بھی سیاسی خاندان نہیں رکھتے‘ بچے ملک سے باہر ہیں‘ پارٹی بھی چھوٹے بڑے پیوند جوڑ کر بنائی گئی‘ یہ بھی لمبی ریس کے کھلاڑی نہیں ہیں‘یہ بھی چلے جائیں گے اور ان کے جاتے ہی ان کی پارٹی بھی بکھر جائے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں سیاسی وراثت چل رہی ہے‘ یہ لوگ ابھی مزید سیاست کرنا چاہتے ہیں چناں چہ یہ کوئی بڑا فیصلہ کر سکے اور نہ مستقبل میں کریں گے جب کہ مودی اور خان دونوں کو اپنی مقبولیت یا ووٹ بینک کی کوئی پروا نہیں‘ یہ کسی بھی جگہ چھلانگ لگا سکتے ہیں اور یہ لگا رہے ہیں‘ یہ کشمیر کا 71 سال پرانا مسئلہ بھی حل کر رہے ہیں اور یہ امن کے نوبل انعام کے لیے کوالی فائی بھی کر رہے ہیں‘ یہ دونوں انعام شیئر کریں گے“۔
وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ”ہمارے پاس اب کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں بچا‘ ہمارے معاشی حالات پوری دنیا کے سامنے ہیں‘ ہم آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان کی امداد کے بغیر ایک سال نہیں چل سکتے‘ ہم اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہو چکے ہوتے تو ہم شاید آج بہتر پوزیشن میں ہوتے لیکن ہمارے پاس مرگ مفاجات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ ہمارے دوست بھی ہماری مدد کر کر کے تھک چکے ہیں‘ چین اب واضح طور پر ہانگ کانگ کی مثال دے کر کہتا ہے ہم نے برطانیہ کے ساتھ اپنے تنازعے منجمد کر دیے تھے۔
برطانیہ ہم سے بدترین رعایتیں لیتا رہا اور ہم اسے دیتے رہے‘ دنیا ہمیں بے غیرتی کا طعنہ دیتی تھی‘ ہم چپ چاپ سہہ لیتے تھے‘ ہمارا فوکس صرف اور صرف معیشت تھا‘ آپ دیکھ لیں ہم جب معاشی لحاظ سے تگڑے ہو گئے تو برطانیہ ہماری بات ماننے پر مجبور ہو گیا‘ ہانگ کانگ ہمیں مل گیا‘ ہم اگر اس کے بجائے جنگ کی طرف جاتے تو ہمیں ہانگ کانگ بھی نہ ملتا اور ہم معاشی طور پر بھی ٹیک آف نہ کر پاتے‘ تم بھی ہمارے پیٹرن پر چلے جاﺅ‘ تم صرف معیشت پر توجہ دو‘ تم اگر معاشی طاقت بن گئے تو بھارت ایک دن تمہاری تمام شرطیں ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔
امریکا کا پیغام مزید واضح ہے‘ یہ چاہتا ہے ہم کنٹرول لائین اور ڈیورنڈ لائین دونوں کا مسئلہ حل کر دیں‘ ہم دونوں کو سرحد مان لیں اور صرف اور صرف اپنی خود انحصاری پر توجہ دیں‘ یہ پاکستان کو نیو کلیئر بم کے ساتھ یوں اکیلے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں چناں چہ ٹرمپ شمالی کوریا کی طرح آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں بھی قدم رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ دنیا کے چھ بڑے تنازعے حل کر کے گھر جانا چاہتے ہیں“ وہ رکے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے‘ میں نے عرض کیا ”اور کشمیری لیڈروں کا کیا بنے گا سر؟“۔ وہ مسکرا کر بولے ”انہیں آپشن دے دیا جائے گا‘ یہ پاکستان چلے جائیں یا پھر انڈیا میں رہ لیں‘ یہ بین الاقوامی ایمنسٹی کے حامل ہوں گے‘ ان کی جان‘ مال اور عزت تینوں محفوظ رہیں گے“۔
ملاقات کا وقت ختم ہوگیا‘ میں رخصت ہو گیا لیکن مجھے پہلی مرتبہ صاحب کی باتیں رطب ویابس اور تخیلاتی محسوس ہوئیں‘ مجھے لگا صاحب اب سٹھیا گئے ہیں اور یہ بے پرکی اڑا کر مجھے حیران بلکہ پریشان کرنا چاہتے ہیں‘ پاکستان اور بھارت دونوں نیو کلیئر پاور ہیں‘ ان کے درمیان کبھی اُدھر تم اور اِدھر ہم نہیں ہوسکے گا لیکن پھر چلتے چلتے خیال آیا‘ صاحب کتنے سچے یا جھوٹے ہیں یہ فیصلہ چند ہی دن میں ہو جائے گا‘ یہ راز اب زیادہ دنوں تک راز نہیں رہ سکے گا‘عمران خان اور نریندر مودی کے درمیان کیا پک رہا ہے یہ چند ہفتوں میں کھل کر سامنے آ جائے گا‘آپ تھوڑی دیر انتظار کریں بس الارم بجنے دیں۔

Thursday, July 25, 2019

عشق کروں گا

مغل شہنشاہ جہانگیر کے پانچ بیٹے تھے‘خسرو مرزا‘پرویز مرزا‘شاہ جہاں مرزا‘شہریار مرزااورجہاندار مرزا‘ شہزادہ شہریارچوتھا بیٹا تھا اور شاہ جہاں تیسرا‘ ملکہ نور جہاں نے جہانگیر سے دوسری شادی کی تھی‘ شیرافگن خان اس کا پہلا خاوند تھا‘ اس سے اس کی بیٹی تھی‘ مہرالنساء بیگم‘ نور جہاں اپنی بیٹی کی شادی شہریار سے کرنا چاہتی تھی اور اس کی خواہش تھی شہریار شادی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بن جائے‘ جہانگیر اپنی بیگم نورجہاں کے زیر اثر تھا‘۔
مورخ لکھتے ہیں جہانگیر کہا کرتا تھا‘میرے لیے ایک جام‘ ایک پارچہ گوشت اور نور جہاں کا ایک دیدار کافی ہے لیکن ملکہ کے تمام تر اثر کے باوجودشہنشاہ شہریار کی بجائے شاہ جہاں کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا‘ ملکہ اور بادشاہ کے درمیان رسہ کشی شروع ہو

گئی‘ ملکہ بار بار کہتی تھی اور بادشاہ بار بار ٹال جاتا تھا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا‘ ایک دن فیصلے کی گھڑی آ گئی‘ ملکہ نے بادشاہ سے سیدھا سیدھا پوچھ لیا ”آپ شہریار کو ولی عہد بنائیں گے یا نہیں! مجھے صاف جواب چاہیے“ بادشاہ پھنس گیا‘ وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا ”ہم یہ فیصلہ دونوں شہزادوں پر چھوڑتے ہیں‘ ہم دونوں کو بلاتے ہیں‘ میں دونوں سے ایک سوال کروں گا اور جس کا جواب اچھا ہو گا ہم اسے ہندوستان کا بادشاہ نامزد کر دیں گے“ ملکہ مان گئی‘ بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو طلب کیا اور سامنے کھڑا کر دیا‘ شہزادے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے‘ بادشاہ نے دونوں سے صرف ایک سوال کیا ”ہم اگر آپ کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیں تو آپ اس ملک کی کس طرح حفاظت کریں گے؟“ بادشاہ نے دونوں کو سوچنے کے لیے ایک ایک منٹ دے دیا‘ ایک منٹ بعد شہزادہ شہریار بولا ”ابا حضور آپ نے اگر مجھے یہ ذمہ داری سونپی تو میں ماں کی طرح ہندوستان کی خدمت کروں گا“ بادشاہ نے سنا اور سر ہلا کر پوچھا ”شہزادہ حضور ماں کی طرح کیوں‘ باپ یا بچے کی طرح کیوں نہیں؟“۔
شہزادے نے فوراً جواب دیا ”ماں ہمیں جنم بھی دیتی ہے‘ ہماری حفاظت بھی کرتی ہے اور ہماری پرورش بھی‘ یہ نہ ہو تو ہم پیدا ہوں اور نہ پل کر جوان ہوں‘ ماں اللہ کی نظر میں بھی مقدس ترین ہستی ہے‘اللہ نے اس کے پاؤں میں جنت رکھی ہے اور برے سے برا مسلمان بھی جنت کواپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دیتا چناں چہ میں سعادت مند بیٹے کی طرح اپنے ملک کو ماں سمجھ کر اس کی خدمت کروں گا“ بادشاہ اس کے بعد شاہ جہاں کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا ”اور شہزادہ حضور اگر آپ کو یہ ذمہ داری سونپی جائے تو آپ کیا کریں گے؟“۔
شاہ جہاں نے ادب سے عرض کیا ”ظل الٰہی! میں اس ملک کی خدمت نہیں کروں گا‘ میں اس سے محبوب کی طرح محبت کروں گا“ یہ جواب سن کر بادشاہ‘ ملکہ اور شہریار تینوں حیران رہ گئے اور انہوں نے شاہ جہاں سے پوچھا ”ہم آپ کا مطلب نہیں سمجھے“ شاہ جہاں نے جواب دیا ”حضور ماں سے محبت مسلمہ ہے لیکن آج تک کسی بیٹے نے اپنی ماں کے لیے جان نہیں دی‘ دنیا میں صرف محبوبہ وہ رشتہ ہے جس کے لیے لوگ جان دیتے بھی ہیں اور جان لیتے بھی ہیں اور میں اس ملک کو اپنی محبوبہ سمجھوں گا اور محبوب کی طرح اس سے عشق کروں گا اور مجھے اگر اس عشق کے لیے جان لینی پڑی تو میں لوں گا اور مجھے اگر اپنی جان دینی پڑی تو میں وہ بھی دوں گا“ یہ جواب سن کر بادشاہ کے منہ سے قہقہہ نکل گیا‘ اس نے ملکہ نور جہاں کی طرف دیکھا اور ملکہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

Hate crimes against Muslims in India raising day by day

  In a shocking incident the other day broadcast live on TV, Atiq Ahmad, a former member of Indian parliament and his brother were in poli...